EN हिंदी
امید ہے کہ مجھ کو خدا آدمی کرے | شیح شیری
ummid hai ki mujhko KHuda aadmi kare

غزل

امید ہے کہ مجھ کو خدا آدمی کرے

میاں نورالاسلام منتظر

;

امید ہے کہ مجھ کو خدا آدمی کرے
پر آدمی کرے تو بھلا آدمی کرے

اس طرح وہ فریب سے دل لے گئے مرا
جس طرح آدمی سے دغا آدمی کرے

بھاتیں نہیں کچھ اس کے نکلتی ہے اپنی جان
کیا ایسے بے وفا سے وفا آدمی کرے

مارا ہے کوہ کن نے سر اپنے پہ تیشہ آہ
دل کو لگی ہو چوٹ تو کیا آدمی کرے

گر کچھ کہا بگڑ کے میں بس اس نے ہنس دیا
کیا ایسے آدمی کا گلا آدمی کرے

گزرا میں ایسی چاہ سے تا چند ہم نشیں
بیٹھا کسی کے سر کو لگا آدمی کرے

ہے عشق بد مرض کوئی جاتا ہے منتظرؔ
کیا خاک اس مرض کی دوا آدمی کرے