اجلے موتی ہم نے مانگے تھے کسی سے تھال بھر
اور اس نے دے دئیے آنسو ہمیں رومال بھر
جس قدر پودے کھڑے تھے رہ گئے ہیں ڈال بھر
دھوپ نے پھر بھی رویے کو نہ بدلا بال بھر
یوں لگا آکاش جیسے مٹھیوں میں بھر لیا
میرے قبضے میں پرندے آ گئے جب جال بھر
اس کی آنکھوں کا بیاں اس کے سوا کیا کیجیے
وسعتیں آکاش سی گہرائیاں پاتال بھر
چھوڑ آئے جب سے ہم کالج کی شاہدؔ نوکری
چھٹیوں کے منتظر رہنے لگے ہیں سال بھر

غزل
اجلے موتی ہم نے مانگے تھے کسی سے تھال بھر
شاہد میر