EN हिंदी
اجالا چھن رہا ہے روشنی تقسیم ہوتی ہے | شیح شیری
ujala chhin raha hai raushni taqsim hoti hai

غزل

اجالا چھن رہا ہے روشنی تقسیم ہوتی ہے

شاذ تمکنت

;

اجالا چھن رہا ہے روشنی تقسیم ہوتی ہے
تری آواز ہے یا زندگی تقسیم ہوتی ہے

کبھی ریگ رواں سے پیاس بجھ جاتی ہے رہرو کی
کبھی دریا کے ہاتھوں تشنگی تقسیم ہوتی ہے

یہی وہ موڑ ہے اپنے پرائے چھوٹ جاتے ہیں
قریب کوئے جاناں گمرہی تقسیم ہوتی ہے

خوشی کے نام پر آنکھوں میں آنسو آ ہی جاتے ہیں
بقدر غم محبت میں خوشی تقسیم ہوتی ہے

یقیں آیا ترے شاداب پیکر کی کھنک سن کر
بدن کے زاویوں میں یوں ہنسی تقسیم ہوتی ہے

قیامت ہے دلوں کے درمیاں دیوار اٹھاتے ہو
دلوں کے درد کی ہمسائیگی تقسیم ہوتی ہے

وہیں کل وقت نے کھائی تھی ٹھوکر یاد ہے اب تک
وہ پیچ و خم جہاں تیری گلی تقسیم ہوتی ہے

سر پہنائے نغمہ شاذؔ کچھ شعلہ سا اٹھتا ہے
سنا ہے دولت‌ پیغمبری تقسیم ہوتی ہے