EN हिंदी
اداسی کا سمندر دیکھ لینا | شیح شیری
udasi ka samundar dekh lena

غزل

اداسی کا سمندر دیکھ لینا

کفیل آزر امروہوی

;

اداسی کا سمندر دیکھ لینا
مری آنکھوں میں آ کر دیکھ لینا

ہمارے ہجر کی تمہید کیا تھی
مری یادوں کا دفتر دیکھ لینا

تصور کے لبوں سے چوم لوں گا
تری یادوں کے پتھر دیکھ لینا

نجومی نے یہ کی ہے پیش گوئی
رلائے گا مقدر دیکھ لینا

نہ رکھنا واسطہ تم مجھ سے لیکن
مری ہجرت کا منظر دیکھ لینا

تمنا ہے اگر ملنے کی مجھ سے
مجھے میرے ہی اندر دیکھ لینا

مکاں شیشے کا بنواتے ہو آزرؔ
بہت آئیں گے پتھر دیکھ لینا