اداس شام کی تنہائیوں میں جلتا ہوا
وہ کاش آئے کبھی میرے پاس چلتا ہوا
شب فراق نے مسمار سارے خواب کیے
کوئی تو مژدہ سنائے یہ دن نکلتا ہوا
ہے کیا عجب کہ کبھی چاند بھی اندھیروں میں
سکوں تلاش کرے زاویے بدلتا ہوا
مرے مسیحا خدا آج تیرا رکھے بھرم
نظر مجھے نہیں آتا یہ جی بہلتا ہوا
میں روشنی کے نگر میں پڑاؤ خاک کروں
ڈرا رہا ہے مجھے اپنا سایہ ڈھلتا ہوا

غزل
اداس شام کی تنہائیوں میں جلتا ہوا
رفیق خیال