ٹوٹا پھوٹا سہی احساس انا ہے مجھ میں
ایسا لگتا ہے کوئی اور چھپا ہے مجھ میں
کرچیاں شیشے کی پیکر میں نہاں ہیں میرے
عکس در عکس کوئی سنگ نما ہے مجھ میں
اب وہ شوریدہ سری ہے نہ وہ جذبوں کی صدا
بس افق تا بہ افق ایک خلا ہے مجھ میں
خواب در خواب مرا پھولوں کی وادی کا سفر
آنکھ کھل جائے تو اک دشت بلا ہے مجھ میں
سطوت جبر وہی رنگ کی دیوار وہی
ایک احساس ہے جو مجھ سے سوا ہے مجھ میں
ہر نفس میرا سلگتے ہوئے خوابوں کا دھواں
آرزوؤں کا کوئی شہر جلا ہے مجھ میں
سنتا رہتا ہوں میں مظلوم کی چیخیں بھی سروپؔ
یا کہ پیکر کسی قاتل کا چبھا ہے مجھ میں

غزل
ٹوٹا پھوٹا سہی احساس انا ہے مجھ میں
اندر سروپ سریواستو