طوفاں سمجھ لیا کبھی ساحل بنا لیا
اے شوق بے اماں تجھے منزل بنا لیا
اب جسم و جان ناز پہ ٹوٹیں قیامتیں
اس سے گریز کیا جسے حاصل بنا لیا
کچھ انتہائے شوق کے تھے سلسلے عجب
مشکل نہیں تھا جو اسے مشکل بنا لیا
جس دن کہ انتظار تھا کرنا نہیں کیا
خود کو مزاج یار کے قابل بنا لیا
اس راہ پر چلے جو زمانے سے ہٹ کے تھی
اور کار زندگی تجھے مشکل بنا لیا
چھوڑا نہیں بنائے بنا ذمہ جو بھی تھا
پھر بھی نہیں کچھ ایسا کہ بے دل بنا لیا
جب چاہا اے سمے تجھے رونق سے کاٹ کر
خلوت نشینی شب محفل بنا لیا
پانی ہی کیا ہوا بھی نہیں اعتبار کی
یہ جان کر ٹھکانہ سر گل بنا لیا

غزل
طوفاں سمجھ لیا کبھی ساحل بنا لیا
خالد محمود ذکی