طوفاں کوئی نظر میں نہ دریا ابال پر
وہ کون تھے جو بہہ گئے پربت کی ڈھال پر
کرنے چلی تھی عقل جنوں سے مباحثے
پتھر کے بت میں ڈھل گئی پہلے سوال پر
میرا خیال ہے کہ اسے بھی نہیں ثبات
جاں دے رہا ہے سارا جہاں جس جمال پر
لے چل کہیں بھی آرزو لیکن زبان دے
ہرگز نہ خون روئے گی اپنے مآل پر
ایسے مکان سے تو یہاں بے مکاں بھلے
ہے انحصار جس کا محض احتمال پر
ماجدؔ خدا کے واسطے کچھ دیر کے لیے
رو لینے دے اکیلا مجھے اپنے حال پر
غزل
طوفاں کوئی نظر میں نہ دریا ابال پر
حسین ماجد