تو پشیماں نہ ہو میں شاد ہوں ناشاد نہیں
زندگی تیرا کرم ہے تری بیداد نہیں
وہ صنم خانۂ دل ہو کہ گزر گاہ خیال
میں نے تجھ کو کہیں دیکھا ہے مگر یاد نہیں
دیکھ اے خاک پریشانیٔ خاطر میری
تو نے سمجھا تھا کہ تجھ سا کوئی برباد نہیں
ڈھونڈتی پھرتی ہیں جانے مری نظریں کس کو
ایسی بستی میں جہاں کوئی بھی آباد نہیں
کب ہمیں اپنی اداسی کی خبر تھی اے زیبؔ
مسکرائے ہیں تو دیکھا ہے کہ دل شاد نہیں

غزل
تو پشیماں نہ ہو میں شاد ہوں ناشاد نہیں
زیب غوری