تو نے نظروں کو بچا کر اس طرح دیکھا مجھے
کیوں نہ کر جاتا بھری محفل میں دل تنہا مجھے
شاخ در شاخ اب کوئی ڈھونڈا کرے پتہ مجھے
میں تو خود ٹوٹا ہوں آندھی نے نہیں توڑا مجھے
لغزش پا نے دیا ہر راہ میں دھوکا مجھے
تا در منزل تو ہی اے جذب دل پہنچا مجھے
صورت آئینہ حیرت سے وہ تکتا رہ گیا
آئنہ خانے میں جس نے غور سے دیکھا مجھے
مار ہی ڈالے گی اک دن کاروبار زیست میں
تنگ دامانی تری اے وسعت دنیا مجھے
عمر بھر ملتی رہی تیری عدالت سے نہ پوچھ
میری نا کردہ گناہی کی سزا کیا کیا مجھے
برگ گل پر رقص شبنم کا یہ منظر اے ضیاؔ
اب تو آتا ہے نظر ہر قطرے میں دریا مجھے
غزل
تو نے نظروں کو بچا کر اس طرح دیکھا مجھے
ضیا فتح آبادی