EN हिंदी
تو نہ ہو ہم نفس اگر جینے کا لطف ہی نہیں | شیح شیری
tu na ho ham-nafas agar jine ka lutf hi nahin

غزل

تو نہ ہو ہم نفس اگر جینے کا لطف ہی نہیں

ہادی مچھلی شہری

;

تو نہ ہو ہم نفس اگر جینے کا لطف ہی نہیں
جس میں نہ تو شریک ہو موت ہے زندگی نہیں

عشرت دید ہے یہی اپنا بھی کچھ رہے نہ ہوش
جلوہ بقید تاب دید اصل میں جلوہ ہی نہیں

اول عشق ہی میں کیا دل کا مآل دیکھنا
یہ تو ہے ابتدائے سوز آگ ابھی لگی نہیں

عشق ہے کیف بے خودی اس کو خودی سے کیا غرض
جس کی فضا ہو وصل و ہجر عشق وہ عشق ہی نہیں

یہ بھی نہ ہو خبر کہ سر سجدے میں ہے جھکا ہوا
جس میں ہو بندگی کا ہوش وہ کوئی بندگی نہیں

کس کا سر نیاز تھا پائے ایاز پر جھکا
مانع بندگئ شوق سطوت خسروی نہیں

کر نہ سکون دل کا غم ہادئ مبتلا ذرا
عشق کی بارگاہ میں درد کی کچھ کمی نہیں