EN हिंदी
تو نہ آئے گا مجھے جب سے یقیں آ گیا ہے | شیح شیری
tu na aaega mujhe jab se yaqin aa gaya hai

غزل

تو نہ آئے گا مجھے جب سے یقیں آ گیا ہے

نبیل احمد نبیل

;

تو نہ آئے گا مجھے جب سے یقیں آ گیا ہے
آسماں جیسے مرا زیر زمیں آ گیا ہے

جس کے ملنے کو مسافت تھی کئی برسوں کی
ایک ہی پل میں وہ ہم زاد یہیں آ گیا ہے

نکھرا نکھرا سا ہے ہر شعر غزل کا میری
سوچ میں جب سے تصور وہ حسیں آ گیا ہے

ہر طرف طنز کے نشتر ہیں ہماری جانب
کس کے ہاتھوں میں مرا دین مبیں آ گیا ہے

آ گیا کام مرے روز کا رونا دھونا
جو نہ آتا تھا کبھی میرے قریں آ گیا ہے

گردش وقت ٹلی ایک ہی لمحے کو یوں ہی
رخ پہ زلفوں کو بکھیرے وہ حسیں آ گیا ہے

صحن گلشن میں سراسیمگی کیسی ہے نبیلؔ
اہل گلشن میں کوئی دشت نشیں آ گیا ہے