تو مری بات کے جادو میں تو آ ہی جاتا
چاہتا میں تو ترے دل میں سما ہی جاتا
بہہ گئی ایک صدا سیل صدا میں ورنہ
میں ترے شہر میں اک شور اٹھا ہی جاتا
وہ اگر دیکھ چکا تھا کئی نیلی لاشیں
کیا ضروری تھا کہ پھر زہر چکھا ہی جاتا
ہم تو کیا خود اسے معلوم تھا انجام اپنا
دیکھنے کے لئے کون اس کی تباہی جاتا
یہ زمیں ایک نیا راستہ ہوتی اشہرؔ
ہم سے پہلے جو ادھر سے کوئی راہی جاتا
غزل
تو مری بات کے جادو میں تو آ ہی جاتا
اقبال اشہر قریشی