تو مل اس سے ہو جس سے دل ترا خوش
بلا سے تیری میں نا خوش ہوں یا خوش
خوشی تیری جسے ہر دم ہو درکار
کوئی اس سے نہیں ہوتا ہے نا خوش
کوئی اب کے زمانہ میں نہ ہوگا
الٰہی آشنا سے آشنا خوش
فلک کے ہاتھ سے اے خالق خلق
کوئی نہیں آ کے دنیا میں رہا خوش
ترا سایہ ہو جس پر اس کو ہرگز
نہ آوے سایۂ بال ہما خوش
قفس میں آہ حد ایذا ہے ہم کو
نہ آتی کاش گلشن کی ہوا خوش
اگر لاوے تو بو اس گل بدن کی
تو ہوں تجھ سے نہایت اے صبا خوش
کیا قتل ان نے مجھ کو غیر سے مل
ہوا دشمن جدا خوش وہ جدا خوش
نصیحت کی تھی ان نے میکشوں کو
بہت مستوں نے زاہد کو کیا خوش
موئے آتش میں جل پروانہ و شمع
محبت سے میں ان کی حد ہوا خوش
کیا چاک اے جنوں ترا بھلا ہو
کبھو میں اس گریباں سے نہ تھا خوش
گیا تھا سیر کو لے ساقی و مے
نہ آئی باغ کی آب و ہوا خوش
کیا قاتل نے بسمل کو مرے دیکھ
مجھے لگتا ہے اس کا لوٹنا خوش
سنے کیوں کر وہ لبیک حرم کو
جسے ناقوس کی آئے صدا خوش
ستانا بے دلوں کے دل کو ہر دم
تمہیں اے دلبرو آتا ہے کیا خوش
سمود و قاقم و سنجاب ہے پشم
مجھے آتا ہے ٹوٹا بوریا خوش
صنم کے پاس سے قاصد پھرا ہے
خدا جانے کہ میں نا خوش ہوں یا خوش
کوئی خوش ہووے خوباں کی وفا سے
مجھے تو ان کی آتی ہے جفا خوش
نہ چھوڑوں گا کبھی میں بت پرستی
نہ ہو گو مجھ سے اے تاباںؔ خدا خوش
غزل
تو مل اس سے ہو جس سے دل ترا خوش
تاباں عبد الحی