EN हिंदी
تو دریا ہے اور ٹھہرنے والا میں | شیح شیری
tu dariya hai aur Thaharne wala main

غزل

تو دریا ہے اور ٹھہرنے والا میں

سلیم محی الدین

;

تو دریا ہے اور ٹھہرنے والا میں
گم ہے مجھ میں خود سے گزرنے والا میں

سورج جیسا منظر منظر بکھرا تو
آئینوں کی دھوپ سے ڈرنے والا میں

تیری گلی سے سر کو جھکائے گزرا ہوں
کبھی زمیں پر پاؤں نہ دھرنے والا میں

سایہ سایہ دھوپ اگانے والا تو
خوابوں جیسا آنکھ اترنے والا میں

جس بستی میں شام اترنے والی ہو
اس بستی کے نام سے ڈرنے والا میں

کسی ورق پر مجھے نہ لکھنا دوست مرے
اندر باہر روز بکھرنے والا میں