EN हिंदी
تو درد تازہ کے عنوان کی مہورت ہے | شیح شیری
tu dard-e-taza ke unwan ki mahurat hai

غزل

تو درد تازہ کے عنوان کی مہورت ہے

ناصر شہزاد

;

تو درد تازہ کے عنوان کی مہورت ہے
سکھی سکھی مجھے اب بھی تری ضرورت ہے

تجھے گپھاؤں کہیں آب ناؤں میں دیکھا
ازل سے آئینہ دل میں تیری صورت ہے

رکھوں سنبھال کے کب تک یہ زندگی تجھ بن
ترے ملن کا سبب ہے نہ کوئی صورت ہے

سڈول پاؤں سبک سوہنا سجل ناؤں
نشہ طراز بدن موہنا مدھورت ہے

یہی نہ تیرے لئے کوہ کاٹے بن پاٹے
تجھے کچھ اور بھی مجھ سے کوئی کدورت ہے