تمہیں بتاؤں کہ کس مشغلے سے آئی ہے
مری نظر میں چمک رت جگے سے آئی ہے
خیال جیسے ہی آیا ذرا سا دم لے لوں
تو اک صدائے جرس قافلے سے آئی ہے
چمک رہی ہے جبیں نقش پا کی برکت سے
وہ بالیقیں ترے راستے سے آئی ہے
یہ کیا عجب ہے کہ مجھ کو ہی کچھ نہیں معلوم
جو میری بات ترے واسطے سے آئی ہے
تم اپنے جسم کی خوشبو سنبھال کر رکھنا
یہ بہکی بہکی صدا آئنے سے آئی ہے
بس اتنی ضد تھی مصلیٰ بچھا کے پینا ہے
پلٹ کے میری انا میکدے سے آئی ہے
جسے بھلائے زمانہ گزر چکا تھا صباؔ
اسی کی یاد بڑے ولولے سے آئی ہے

غزل
تمہیں بتاؤں کہ کس مشغلے سے آئی ہے
کامران غنی صبا