EN हिंदी
تمہارے پاس رہیں ہم تو موت بھی کیا ہے | شیح شیری
tumhaare pas rahen hum to maut bhi kya hai

غزل

تمہارے پاس رہیں ہم تو موت بھی کیا ہے

آزاد گلاٹی

;

تمہارے پاس رہیں ہم تو موت بھی کیا ہے
مگر جو دور کٹے تم سے زندگی کیا ہے

جب اٹھ کے چل دیئے تم تیرگی امڈ آئی
جو تم نہ ہو تو چراغوں کی روشنی کیا ہے

کچھ ایسے پھول بھی گزرے ہیں میری نظروں سے
جو کھل کے بھی نہ سمجھ پائے زندگی کیا ہے

بس ان کی یاد کے ہم پاؤں چوم لیتے ہیں
ہمیں خبر نہیں معراج بندگی کیا ہے

کبھی جو گوش بر آواز ہو کے اس کو سنو
تمہیں پتہ بھی چلے ساز خامشی کیا ہے

مری نگاہ نے کیا کیا نہ خواب دیکھے ہیں
تری نگاہ نے اک بات سی کہی کیا ہے

ہمیں نے ظلمت ہستی میں دل جلائے ہیں
یہ ہم سمجھتے ہیں درمان تیرگی کیا ہے

ابھر رہی ہے جو رہ رہ کے دل کی دھڑکن میں
وہ آرزو ہے کہ ہے اس کی بے بسی کیا ہے

خزاں نصیب ہوں نظریں جو اہل گلشن کی
تو پھر بہار کے جلووں کی تازگی کیا ہے

جہاں میں یہ کبھی مجبور ہے کبھی مختار
ہے ایک شعبدہ آزادؔ آدمی کیا ہے