تمہارے عشق میں کس کس طرح خراب ہوئے
رہا نہ عالم ہجراں نہ وصل یاب ہوئے
بس اتنی بات تھی دو دن کبھی نہ مل پائیں
کہیں پہ تپتے ہوئے تھل کہیں چناب ہوئے
عجب سزا ہے کہ میرے دعاؤں والے حروف
نہ مسترد ہوئے اب تک نہ مستجاب ہوئے
ذہانتیں تھیں تری یا اناڑی پن اپنا
سوال وصل سے پہلے ہی لا جواب ہوئے
حقیقت اتنی ہے اس کے مرے تعلق کی
کسی کے دکھ تھے مرے نام انتساب ہوئے
جسے سمجھتے تھے صحرا وہ اک سمندر تھا
کھلا وہ شخص تو ہم کیسے آب آب ہوئے
نہ آیا ڈھنگ ہمیں کوئی عشق کا حیدرؔ
نہ دل کے زخموں کے ہم سے کبھی حساب ہوئے
غزل
تمہارے عشق میں کس کس طرح خراب ہوئے
حیدر قریشی