EN हिंदी
تم نے پوچھا نہیں کبھی ہم کو | شیح شیری
tumne puchha nahin kabhi hum ko

غزل

تم نے پوچھا نہیں کبھی ہم کو

شرف مجددی

;

تم نے پوچھا نہیں کبھی ہم کو
تم سے امید یہ نہ تھی ہم کو

روتے دیکھا مجھے تو فرمایا
آ نہ جائے کہیں ہنسی ہم کو

جس نظر سے کہ چاہتے تھے ہم
تم نے دیکھا نہیں کبھی ہم کو

ہائے کہنا کسی کا جاتے ہوئے
کیجئے رخصت ہنسی خوشی ہم کو

او جوانوں کی جان ہم سے حجاب
یاد ہے تیری کم سنی ہم کو

ہائے کیا بھولے پن سے کہتے ہیں
گھورتی کیوں ہے آرسی ہم کو

مدتوں میں حضور یار شرفؔ
آج لائی ہے بے خودی ہم کو