تم نہ گھبراؤ مرے زخم جگر کو دیکھ کر
میں نہ مر جاؤں تمہاری چشم تر کو دیکھ کر
زخم تازہ کر رہا ہوں چارہ گر کو دیکھ کر
راستہ میں نے بدل ڈالا خضر کو دیکھ کر
زندگانی اک فریب دائمی ہے سر بسر
مجھ پہ یہ ظاہر ہوا شام و سحر کو دیکھ کر
گرچہ ان سے کوئی امید وفا مجھ کو نہیں
جی بہل جاتا ہے پھر بھی نامہ بر کو دیکھ کر
آج انساں سے ہے انساں برسر پیکار یوں
الاماں شیطاں پڑھے خوئے بشر کو دیکھ کر
آدمی میں آدمیت کا نشاں باقی نہیں
بیچ ڈالا اس نے ایماں سیم و زر کو دیکھ کر
آسماں تک تو ہم اے رفعتؔ رہے گرم خرام
اس سے آگے چل نہ پائے راہبر کو دیکھ کر

غزل
تم نہ گھبراؤ مرے زخم جگر کو دیکھ کر
سدرشن فاخر