تم مرے پاس رہو جسم کی گرمی بخشو
سرد ہے رات بہت گھر سے نہ باہر نکلو
دودھیا چاندنی بستر پہ کہاں سے آئی
پھر کوئی چاند نہ نکلا ہو گلی میں دیکھو
سر پہ کب کون کہاں سنگ ملامت مارے
پارساؤں سے پرے کلبۂ احزاں میں رہو
کوئی بھونرا نہ کہیں پھول کا رس پی جائے
اپنی مدہوش نگاہوں کے دریچے کھولو
جانے کس منزل بے نام کی جانب نکلوں
اپنی تنہائی سے ڈرتا ہوں مرے ساتھ رہو
برف اک روز پہاڑوں کی پگھل جائے گی
سرد مہریٔ زمانہ کی شکایت نہ کرو
کتنی بیتی ہوئی صدیوں کی کہانی ہوں شمیمؔ
میرے چہرے کی یہ بگڑی ہوئی تحریر پڑھو

غزل
تم مرے پاس رہو جسم کی گرمی بخشو
سید احمد شمیم