تم کو یہ ہے اگر یقیں دل میں وہ جلوہ گر نہیں
ڈھونڈھا کرو تمام عمر ملنے کا عمر بھر نہیں
آئے نہ آئے بے خبر کیا تجھے یہ خبر نہیں
سانس کا اعتبار کیا شام ہے تو سحر نہیں
دیر ہو کعبہ ہو کہ دل کس میں وہ جلوہ گر نہیں
دیکھ سکوں مگر اسے اتنی مری نظر نہیں
کنج قفس میں عندلیب مضطر و بیکس و غریب
کہنے کو بال و پر تو ہیں اڑنے کو بال و پر نہیں
دل میں بلا کا جوش ہے سر لئے سرفروش ہے
جینے کا ہوش ہے کہاں مرنے کا اس کو ڈر نہیں
توڑ رہا ہے آج دم غم میں کوئی مریض غم
پھر بھی ہیں آپ بے خبر آپ کو کچھ خبر نہیں
جان گئے یہ مر کے ہم ملک عدم تھا دو قدم
ختم ہو جلد جو سفر ایسا کوئی سفر نہیں
پردے میں آپ بیٹھ کر رکھتے ہیں ہر طرف نظر
اور زبان پر یہ ہے شوخ مری نظر نہیں
لب پہ ہے نعرۂ الست جھوم رہا ہے کوئی مست
چھائی ہے ایسی بے خودی اپنی اسے خبر نہیں
اف یہ مرا نصیب بد جا کے بنی کہاں لحد
سب کی ہے رہ گزر جہاں آپ کی رہ گزر نہیں
بات یہ تم نے سچ کہی بسملؔ بے ہنر سہی
یہ بھی ہے اک بڑا ہنر اس میں کوئی ہنر نہیں
غزل
تم کو یہ ہے اگر یقیں دل میں وہ جلوہ گر نہیں
بسمل الہ آبادی