تم کہہ رہے ہو نیلے خلا میں رنگوں کا جال پھیلا ہے
میں پوچھتا ہوں رنگوں کے پار پانی کا رنگ کیسا ہے
مجرم ہے دل کہ معمولی آہٹوں پر بھی چونک اٹھتا ہے
کمرے میں ورنہ کوئی نہیں یہ پاگل ہوا کا جھونکا ہے
میں سخت راستوں پر چلا ہوں میرے نشاں نہ ڈھونڈو تم
پتھر پہ خود ہی چل کر بتاؤ کیا کوئی نقش بنتا ہے
کتنے شگفتہ چہروں میں لوگ خود کو چھپائے پھرتے ہیں
پر کیا بتاؤں چہروں کے پار مجھ کو دکھائی دیتا ہے
تم آج ساری سمتوں میں برف سے میرا نام لکھتے ہو
تم جانتے ہو موسم کے ساتھ اس برف کو پگھلنا ہے
دھندلی اداس گلیوں میں لوگ سائے کی طرح چلتے ہیں
منظر اٹھاؤ پلکیں سجاؤ سب کچھ تو خواب جیسا ہے

غزل
تم کہہ رہے ہو نیلے خلا میں رنگوں کا جال پھیلا ہے
رئیس فراز