EN हिंदी
تم کہہ رہے ہو نیلے خلا میں رنگوں کا جال پھیلا ہے | شیح شیری
tum kah rahe ho nile KHala mein rangon ka jal phaila hai

غزل

تم کہہ رہے ہو نیلے خلا میں رنگوں کا جال پھیلا ہے

رئیس فراز

;

تم کہہ رہے ہو نیلے خلا میں رنگوں کا جال پھیلا ہے
میں پوچھتا ہوں رنگوں کے پار پانی کا رنگ کیسا ہے

مجرم ہے دل کہ معمولی آہٹوں پر بھی چونک اٹھتا ہے
کمرے میں ورنہ کوئی نہیں یہ پاگل ہوا کا جھونکا ہے

میں سخت راستوں پر چلا ہوں میرے نشاں نہ ڈھونڈو تم
پتھر پہ خود ہی چل کر بتاؤ کیا کوئی نقش بنتا ہے

کتنے شگفتہ چہروں میں لوگ خود کو چھپائے پھرتے ہیں
پر کیا بتاؤں چہروں کے پار مجھ کو دکھائی دیتا ہے

تم آج ساری سمتوں میں برف سے میرا نام لکھتے ہو
تم جانتے ہو موسم کے ساتھ اس برف کو پگھلنا ہے

دھندلی اداس گلیوں میں لوگ سائے کی طرح چلتے ہیں
منظر اٹھاؤ پلکیں سجاؤ سب کچھ تو خواب جیسا ہے