تم آ گئے ہو تو کیوں انتظار شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
خلوص و مہر و وفا لوگ کر چکے ہیں بہت
مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں
یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک
قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں
ہر آدمی نہیں شائستۂ رموز سخن
وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
خدا اگر کبھی کچھ اختیار دے ہم کو
تو پہلے خاک نشینوں کا انتظام کریں
رہ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصرؔ
متاع درد انہی ساتھیوں کے نام کریں
غزل
تم آ گئے ہو تو کیوں انتظار شام کریں
ناصر کاظمی