تجھ کو میرے قرب میں پا کر جلتے ہیں دیوانے لوگ
میرے تیرے نام سے اکثر گڑھتے ہیں افسانے لوگ
آج خزاں کے ہاتھ گلستاں بیچ دئے ہیں یاروں نے
فصل گل کو یاد کریں گے دیکھ کے یہ ویرانے لوگ
لوگوں کی تشہیر کے ڈر سے ہم نے ملنا چھوڑ دیا
بھولی بسری باتیں لے کر کہتے ہیں افسانے لوگ
میں نے تجھ سے پیار کیا تھا میں نے تجھ کو پوجا تھا
الفت میری دیکھ نہ پائے الفت سے بیگانے لوگ
ان کو پاگل کہنے والو ان کی کچھ توقیر کرو
رونق بزم ہستی میں یہ دنیا کے دیوانے لوگ
ان کو ہے کب پیار کسی سے جو نفرت کے عادی ہیں
جانے کس مٹی سے بنے ہیں ہائے یہ انجانے لوگ
اس دنیا میں رہ کر ہم نے دیکھا ہے جانبازؔ یہی
وقت پڑے تو کر لیتے ہیں مطلب کے یارانے لوگ
غزل
تجھ کو میرے قرب میں پا کر جلتے ہیں دیوانے لوگ
ستیہ پال جانباز