تو یوں کہو نا دلوں کا شکار کرنا ہے
ہوا کے ساتھ سفر اختیار کرنا ہے
بجا کہ زخم نہ گنوائیں گے مگر جاناں
وہ پھول کتنے ہیں جن کا شمار کرنا ہے
غرور و تمکنت و جہل سے نبھا لینا
فراز کوہ کو گویا غبار کرنا ہے
وہ بد سرشت پرندہ ہے اس کا مسلک ہی
جو پک گئے وہ ثمر داغدار کرنا ہے
اسے بھی رات گئے بے چراغ ہونا ہے
ہمیں بھی چوک میں کچھ انتظار کرنا ہے
وہ ایک اشک جو مندوب دل کا کہلائے
وہ ایک جھیل جسے آبشار کرنا ہے

غزل
تو یوں کہو نا دلوں کا شکار کرنا ہے
سجاد بابر