EN हिंदी
تو یوں کہو نا دلوں کا شکار کرنا ہے | شیح شیری
to yun kaho na dilon ka shikar karna hai

غزل

تو یوں کہو نا دلوں کا شکار کرنا ہے

سجاد بابر

;

تو یوں کہو نا دلوں کا شکار کرنا ہے
ہوا کے ساتھ سفر اختیار کرنا ہے

بجا کہ زخم نہ گنوائیں گے مگر جاناں
وہ پھول کتنے ہیں جن کا شمار کرنا ہے

غرور و تمکنت و جہل سے نبھا لینا
فراز کوہ کو گویا غبار کرنا ہے

وہ بد سرشت پرندہ ہے اس کا مسلک ہی
جو پک گئے وہ ثمر داغدار کرنا ہے

اسے بھی رات گئے بے چراغ ہونا ہے
ہمیں بھی چوک میں کچھ انتظار کرنا ہے

وہ ایک اشک جو مندوب دل کا کہلائے
وہ ایک جھیل جسے آبشار کرنا ہے