تشنگی باقی رہے دیوانگی باقی رہے
رنج و غم ہے اس لیے تاکہ خوشی باقی رہے
زخم اگر بھر جائے گا تو بھول جاؤں گا اسے
یہ دعا دو زخم دل کی تازگی باقی رہے
قربتیں بھی دوریوں کا بن گئیں اکثر سبب
اس لیے بہتر ہے ان کی بے رخی باقی رہے
ٹھہر جانا موت ہے اور چلتے رہنا زندگی
زندگی باقی رہے آوارگی باقی رہے
روشنی ہوگی تو کتنے چہرے ہوں گے بے نقاب
کہہ دو یہ افروزؔ سے کہ تیرگی باقی رہے
غزل
تشنگی باقی رہے دیوانگی باقی رہے
افروز طالب