تشنہ لبی نے جب بھی ذوق عمل دیا ہے
رندوں نے میکدے کا ساقی بدل دیا ہے
دنیا ہے اس کی شاہد اس شہر بے اماں نے
جس میں انا سمائی وہ سر کچل دیا ہے
کھلتے رہے ہیں جو گل باد خزاں کی شہ پر
دست صبا نے بڑھ کر ان کو مسل دیا ہے
سب نے سنی ہے جس میں عصر رواں کی دھڑکن
منظورؔ ہم نے ایسا ساز غزل دیا ہے

غزل
تشنہ لبی نے جب بھی ذوق عمل دیا ہے
ملک زادہ منظور احمد