تشنہ لب کوئی جو سرگشتہ سرابوں میں رہا
بستۂ وہم و گماں بھاگتا خوابوں میں رہا
دل کی آوارہ مزاجی کا گلا کیا کیجے
خانہ برباد رہا خانہ خرابوں میں رہا
ایک وہ حرف جنوں نقش گر لوح و قلم
ایک وہ باب خرد بند کتابوں میں رہا
بے حسی وہ ہے کہ اس دور میں جینے کا مزا
نہ گناہوں میں رہا اور نہ ثوابوں میں رہا
جمع کرتا رہا یہ سود و زیاں کے اعداد
عمر بھر ذہن بشر الجھا حسابوں میں رہا
اب کوئی اور ہی شے وجہ نشاط دل ہو
نشہ و کیف شرر اب نہ شرابوں میں رہا

غزل
تشنہ لب کوئی جو سرگشتہ سرابوں میں رہا
شرر فتح پوری