تری یاد جو میرے دل میں ہے بس اسی کی جلوہ گری رہی
مرا غم بھی تازہ بہ تازہ ہے مری شاخ فن بھی ہری رہی
میں نے اپنے پردۂ شعر میں تجھے اس ہنر سے چھپا لیا
کہ غزل کہی تو ہر اک غزل تری خوشبوؤں سے بھری رہی
یہی زندگی مری زندگی یہی زندگی مری موت ہے
تری یاد بن گئی اک چھری جو مرے گلے پہ دھری رہی
تجھے شوق میرے کلام سے تجھے پیار میرے ہنر سے تھا
تجھے اپنا میں نہ بنا سکی یہی میری بے ہنری رہی
میں فریفتہ تیرے ناز پر میں نثار تیرے نیاز پر
تری ہر ادا میں فریب تھا مجھے جس کی بے خبری رہی
کبھی انجمؔ وہ بھی دن آ گئے کہ خوشی کی بزم سجائیں گے
یہ تمنا جو میرے دل میں تھی وہ یوں ہی دھری کی دھری رہی

غزل
تری یاد جو میرے دل میں ہے بس اسی کی جلوہ گری رہی
صوفیہ انجم تاج