EN हिंदी
تری طلب نے فلک پہ سب کے سفر کا انجام لکھ دیا ہے | شیح شیری
teri talab ne falak pe sab ke safar ka anjam likh diya hai

غزل

تری طلب نے فلک پہ سب کے سفر کا انجام لکھ دیا ہے

گلزار بخاری

;

تری طلب نے فلک پہ سب کے سفر کا انجام لکھ دیا ہے
کسی کو نجم سحر کسی کو ستارۂ شام لکھ دیا ہے

زباں پہ حرف ملال کیوں ہو کہ ہم ہیں راضی تری رضا پر
ترا کرم تو نے آب و دانہ اگر تہ دام لکھ دیا ہے

بچا کے اپنے لیے نہ رکھا کوئی گریباں کا تار ہم نے
جنوں سے جو کچھ بھی ہم نے پایا وہ سب ترے نام لکھ دیا ہے

نگاہ بازار پر نہیں تھی وگرنہ کیوں چارہ ساز غم نے
مریض کے نسخۂ شفا میں خلوص کا جام لکھ دیا ہے

یہ کس کے خامے کا ہے نوشتہ کہ بو الہوس عیش کر رہے ہیں
نصیب اہل نظر میں کس نے ہجوم آلام لکھ دیا ہے

جہان حرف و صدا میں چرچا نہ کیوں ہو گلزارؔ خاص تیرا
ترے لیے تیری خوشنوائی نے شہرۂ عام لکھ دیا ہے