تری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں
جو زخم دل کو ملے تھے وہ بھرتے جاتے ہیں
ترے بغیر وہ دن بھی گزر گئے آخر
ترے بغیر یہ دن بھی گزرتے جاتے ہیں
لیے چلو مجھے دریائے شوق کی موجو
کہ ہم سفر تو مرے پار اترتے جاتے ہیں
تمام عمر جہاں ہنستے کھیلتے گزری
اب اس گلی میں بھی ہم ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں
میں خواہشوں کے گھروندے بنائے جاتا ہوں
وہ محنتیں مری برباد کرتے جاتے ہیں
غزل
تری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں
ناصر کاظمی