EN हिंदी
تری نظر کے اشاروں کو دلکشی بخشی | شیح شیری
teri nazar ke ishaaron ko dil-kashi baKHshi

غزل

تری نظر کے اشاروں کو دلکشی بخشی

قیصر نظامی

;

تری نظر کے اشاروں کو دلکشی بخشی
نظر نواز نظاروں کو تازگی بخشی

خزاں کی زد میں ہی اب تک ترا گلستاں تھا
ہمیں نے آ کے بہاروں کو زندگی بخشی

چمن کو ہم نے ہی اپنے لہو سے سینچا ہے
کلی کو ہم نے ہی اک طرز دلکشی بخشی

تری ادا بھی ادا ہے وہ اک قیامت کی
یہ اور بات ہے تاروں کو دلکشی بخشی

ہے زعم چاک گریباں کو اپنی قسمت پر
کہ تم نے کیوں نہ مجال رفو گری بخشی

سنا دو اہل وفا کو یہ فلسفہ قیصرؔ
جنوں نے ہوش کی دنیا کو آگہی بخشی