تری نظر کے اشاروں کو دلکشی بخشی
نظر نواز نظاروں کو تازگی بخشی
خزاں کی زد میں ہی اب تک ترا گلستاں تھا
ہمیں نے آ کے بہاروں کو زندگی بخشی
چمن کو ہم نے ہی اپنے لہو سے سینچا ہے
کلی کو ہم نے ہی اک طرز دلکشی بخشی
تری ادا بھی ادا ہے وہ اک قیامت کی
یہ اور بات ہے تاروں کو دلکشی بخشی
ہے زعم چاک گریباں کو اپنی قسمت پر
کہ تم نے کیوں نہ مجال رفو گری بخشی
سنا دو اہل وفا کو یہ فلسفہ قیصرؔ
جنوں نے ہوش کی دنیا کو آگہی بخشی
غزل
تری نظر کے اشاروں کو دلکشی بخشی
قیصر نظامی