ترے نزدیک آتا جا رہا ہوں
وجود اپنا مٹاتا جا رہا ہوں
مقدر آزماتا جا رہا ہوں
میں تجھ سے دل لگاتا جا رہا ہوں
زبانی تیر کھاتا جا رہا ہوں
میں پھر بھی مسکراتا جا رہا ہوں
تجھے پانے کی اک خواہش میں جاناں
میں کتنے زخم کھاتا جا رہا ہوں
اندھیروں سے بہت ڈرتا ہوں لیکن
چراغوں کو بجھاتا جا رہا ہوں
رکھے تھے راہ میں جو دوستوں نے
میں سب پتھر ہٹاتا جا رہا ہوں
لگا کر آگ اپنے ہی مکاں میں
میں شعلوں کو بجھاتا جا رہا ہوں
ازل کی سمت سے چل کر میں عارفؔ
ابد کی سمت جاتا جا رہا ہوں

غزل
ترے نزدیک آتا جا رہا ہوں
سید محمد عسکری عارف