ترے خیال میں دل آج سوگوار سا ہے
مجھے گمان ہے کچھ اس کو انتظار سا ہے
میں سادہ دل تھا کہ دامن پہ ان کے رو بھی دیا
مگر گلوں کے دلوں میں ابھی غبار سا ہے
وہ معتبر تو نہیں ہے پر اس کو کیا کیجے
کہ اس کے وعدوں پہ پھر آج اعتبار سا ہے
میں تجھ سے رمز محبت کہوں تو کیسے کہوں
میں بے قرار ہوں اور تجھ کو کچھ قرار سا ہے
تجھی پہ کچھ نہیں موقوف اے دل محروم
جہاں بھی دیکھیے عالم میں انتشار سا ہے
تو ہوش مند کہاں کا تھا کچھ تو کہہ مسعودؔ
یہ کیا ہے آج تجھے دل یہ اختیار سا ہے

غزل
ترے خیال میں دل آج سوگوار سا ہے
مسعود حسین خاں