ترے بدن کے نئے زاویے بناتا ہوا
گزر رہا ہے کوئی دائرے بناتا ہوا
یہاں ستارے کو کیا لین دین کرنا تھا
جو ٹوٹ پھوٹ گیا رابطے بناتا ہوا
وفا پرست نہیں تھا تو اور کیا تھا وہ
جو زخم زخم ہوا آئنے بناتا ہوا
میں دوستوں کے اک اک امتحاں سے گزرا ہوں
بکھر گیا ہوں کئی راستے بناتا ہوا
سلیمؔ ٹوٹ نہ جائے کہیں بھرم اپنا
نکل پڑا ہوں نئے سلسلے بناتا ہوا
غزل
ترے بدن کے نئے زاویے بناتا ہوا
اشرف سلیم