ترا خیال تھا لفظوں میں ڈھل گیا کیسے
دلوں میں شمع غزل بن کے جل گیا کیسے
وہ آدمی جو مرا دوست تھا زمانے تک
پتہ نہیں کہ یکایک بدل گیا کیسے
بہت ہی تیز ہوا شعر حادثات کی تھی
میں گرتے گرتے نہ جانے سنبھل گیا کیسے
کہیں بھی آگ لگانے کا واقعہ نہ ہوا
تو پھر حضور مکاں میرا جل گیا کیسے
خلش سے جس کی تھی وابستہ یاد منزل کی
وہ خار پاؤں سے خسروؔ نکل گیا کیسے

غزل
ترا خیال تھا لفظوں میں ڈھل گیا کیسے
امیر احمد خسرو