ترا دل تو نہیں دل کی لگی ہوں
ترے دامن پہ آنسو کی نمی ہوں
میں اپنے شہر میں تو اجنبی تھا
میں اپنے گھر میں بھی اب اجنبی ہوں
کہاں تک مجھ کو سلجھاتے رہو گے
بہت الجھی ہوئی سی زندگی ہوں
خبر جس کی نہیں باہر کسی کو
میں تہ خانے کی ایسی روشنی ہوں
تھکن سے چور تنہا سوچ میں گم
میں پچھلی رات کی وہ چاندنی ہوں
مرا یہ حشر بھی ہونا تھا اک دن
کبھی اک چیخ تھا اب خامشی ہوں
گزر کر نیک و بد کی ہر گلی سے
سراپا آگہی ہوں گمرہی ہوں
مرا یہ حزنیہ اس دور میں ہے
سخن تو ہوں مگر ناگفتنی ہوں

غزل
ترا دل تو نہیں دل کی لگی ہوں
سلیمان اریب