ٹھوکروں کی شے پرستش کی نظر تک لے گئے
ہم ترے کوچے کے اک پتھر کو گھر تک لے گئے
چھوڑ کر جاتے رہے سب کارواں والے مگر
راستے ہی ہم سفر نکلے جو گھر تک لے گئے
اپنے ہی مقتول ٹھہرے اپنے ہی قاتل بنے
اپنے ہی ہاتھوں سے ہم کشتی بھنور تک لے گئے
شام ہی تک تھا سکوت قبل طوفاں پھر نہ پوچھ
کیسے کیسے ہم چراغ شب سحر تک لے گئے
ٹوٹتا کب تک نہ آخر ایسے طائر کا غرور
نوچ کر صیاد جس کے بال و پر تک لے گئے

غزل
ٹھوکروں کی شے پرستش کی نظر تک لے گئے
رونق رضا