تھوڑی سی شہرت بھی ملی ہے تھوڑی سی بدنامی بھی
میری سیرت میں اے قیصرؔ خوبی بھی ہے خامی بھی
کتنے عاشق سنبھل گئے ہیں میرا فسانہ سن سن کر
میرے حق میں جیسی بھی ہو کام کی ہے ناکامی بھی
محفل محفل ذکر ہمارا سوچ سمجھ کے کر واعظ
اپنے مخالف بھی ہیں کتنے اور ہیں کتنے حامی بھی
ایسا تو ممکن ہی نہیں ہے چاند میں کوئی داغ نہ ہو
جس میں ہوگی کچھ بھی خوبی اس میں ہوگی خامی بھی
میرا مذہب عشق کا مذہب جس میں کوئی تفریق نہیں
میرے حلقے میں آتے ہیں تلسیؔ بھی اور جامیؔ بھی
یوں تو سکوں کے لمحے قیصرؔ ہوتے ہیں انمول بہت
لیکن اپنے کام آتی ہے دل کی بے آرامی بھی
غزل
تھوڑی سی شہرت بھی ملی ہے تھوڑی سی بدنامی بھی
قیصر شمیم