تھوڑی دیر کو ہم جو کہیں رک جاتے تو یہ ممکن تھا
مل ہی جاتا وہ جو اپنے علاقے کا اک ساکن تھا
کچھ بھی یاد نہیں اب پڑتا کب پردیس کو نکلے تھے
شاید شام لگی تھی ڈھلنے یا شاید چڑھتا دن تھا
ہم نے جتن تو لاکھ کیے تھے وقت نے ایسی کروٹ لی
اپنی جڑوں سے ہم جڑ پاتے ایک یہی نا ممکن تھا
وہ اک سانحہ ہم نہ جسے کہہ پائے اب تک گزرا جب
کیسے کیسے دل سے چاہا تھا کہ نہ سچ ہو لیکن تھا
تلخؔ نہیں تھا سہل یہ لہجہ جیون بھر کی تپسیا ہے
ہر جذبے کے ہم ضامن تھے درد ہمارا ضامن تھا

غزل
تھوڑی دیر کو ہم جو کہیں رک جاتے تو یہ ممکن تھا
منموہن تلخ