تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے
تو آ کے جان رات کے منظر میں ڈال دے
جس دن مری جبیں کسی دہلیز پر جھکے
اس دن خدا شگاف مرے سر میں ڈال دے
اللہ تیرے ساتھ ہے ملاح کو نہ دیکھ
یہ ٹوٹی پھوٹی ناؤ سمندر میں ڈال دے
آ تیرے مال و زر کو میں تقدیس بخش دوں
لا اپنا مال و زر مری ٹھوکر میں ڈال دے
بھاگ ایسے رہنما سے جو لگتا ہے خضر سا
جانے یہ کس جگہ تجھے چکر میں ڈال دے
اس سے ترے مکان کا منظر ہے بد نما
چنگاری میرے پھوس کے چھپر میں ڈال دے
میں نے پناہ دی تجھے بارش کی رات میں
تو جاتے جاتے آگ مرے گھر میں ڈال دے
اے کیفؔ جاگتے تجھے پچھلا پہر ہوا
اب لاش جیسے جسم کو بستر میں ڈال دے
غزل
تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے
کیف بھوپالی