تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا
وہ اک ایسا لمس تھا جس میں بدن شامل نہ تھا
ریت کی دلدل ملی مجھ کو سمندر پار بھی
میں وہاں اترا جہاں ساحل کبھی ساحل نہ تھا
وہ تو اک سازش تھی میرے خون کی میرے خلاف
جس کے سر الزام آیا وہ مرا قاتل نہ تھا
ہم نے کاٹے پیڑ تو سایوں کی یاد آنے لگی
لیکن اب حرف ندامت سے بھی کچھ حاصل نہ تھا
سر پہ آ گرتا ہے تکمیل محبت کا پہاڑ
ورنہ اظہار تمنا تو کوئی مشکل نہ تھا
پر لگا کر اڑ گئے آخر مری نیندوں کے ساتھ
پیار کے وہ خواب جن کا کوئی مستقبل نہ تھا
ان سے مل کر یہ بھی دیکھی شعبدہ بازی قتیلؔ
دھڑکنیں موجود تھیں سینے میں لیکن دل نہ تھا
غزل
تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا
قتیل شفائی