EN हिंदी
تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا | شیح شیری
thi ham-aghoshi magar kuchh bhi mujhe hasil na tha

غزل

تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا

قتیل شفائی

;

تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا
وہ اک ایسا لمس تھا جس میں بدن شامل نہ تھا

ریت کی دلدل ملی مجھ کو سمندر پار بھی
میں وہاں اترا جہاں ساحل کبھی ساحل نہ تھا

وہ تو اک سازش تھی میرے خون کی میرے خلاف
جس کے سر الزام آیا وہ مرا قاتل نہ تھا

ہم نے کاٹے پیڑ تو سایوں کی یاد آنے لگی
لیکن اب حرف ندامت سے بھی کچھ حاصل نہ تھا

سر پہ آ گرتا ہے تکمیل محبت کا پہاڑ
ورنہ اظہار تمنا تو کوئی مشکل نہ تھا

پر لگا کر اڑ گئے آخر مری نیندوں کے ساتھ
پیار کے وہ خواب جن کا کوئی مستقبل نہ تھا

ان سے مل کر یہ بھی دیکھی شعبدہ بازی قتیلؔ
دھڑکنیں موجود تھیں سینے میں لیکن دل نہ تھا