EN हिंदी
تھک گئے تم حسرت ذوق شہادت کم نہیں | شیح شیری
thak gae tum hasrat-e-zauq-e-shahadat kam nahin

غزل

تھک گئے تم حسرت ذوق شہادت کم نہیں

امیر اللہ تسلیم

;

تھک گئے تم حسرت ذوق شہادت کم نہیں
مجھ سے دم لے لو اگر تیغ ستم میں دم نہیں

دردمندان ازل رکھتے نہیں درماں کا غم
سینۂ صد چاک گل منت کش مرہم نہیں

روز مرتے ہیں ہزاروں دیکھ کر نیرنگ حسن
گر یہی عالم تمہارا ہے تو یہ عالم نہیں

مر مٹے ہم عشق کے شہرے وہی ہیں چار سو
شور رسوائی پس مردن بھی اپنا کم نہیں

نالۂ آتش فشاں یوں ہی اگر ہے اوج پر
تو نہیں اے آسمان فتنہ گر یا ہم نہیں

بے ثباتی پر بہار باغ کی روتا ہے چرخ
روئے گل پر قطرہ ہائے اشک ہیں شبنم نہیں

خوش ہیں میرے مرنے سے تسلیمؔ خویش و اقربا
خانۂ شادی ہے گویا خانۂ ماتم نہیں