EN हिंदी
ٹھہرے بھی نہیں ہیں کہیں چلتے بھی نہیں ہیں | شیح شیری
Thahre bhi nahin hain kahin chalte bhi nahin hain

غزل

ٹھہرے بھی نہیں ہیں کہیں چلتے بھی نہیں ہیں

سچن شالنی

;

ٹھہرے بھی نہیں ہیں کہیں چلتے بھی نہیں ہیں
ہم جسم کی سرحد سے نکلتے بھی نہیں ہیں

خود سے ملیں گے سوچ کے گھر سے ہیں نکلتے
لیکن کمال یہ ہے کہ ملتے بھی نہیں ہیں

پلکوں کے کناروں پہ ہیں بے چین سے آنسو
گرتے بھی نہیں اور سنبھلتے بھی نہیں ہیں

آنکھوں کی یہ سازش ہے یا نیندوں کی بغاوت
بچوں کی طرح خواب جو پلتے بھی نہیں ہیں

اک رنگ ہی اس زیست کو کافی ہے سچنؔ بس
موسم کی طرح رنگ بدلتے بھی نہیں ہیں