EN हिंदी
تیری دولت رہ جائے گی تیرے گھر چوباروں تک | شیح شیری
teri daulat rah jaegi tere ghar chaubaron tak

غزل

تیری دولت رہ جائے گی تیرے گھر چوباروں تک

پربدھ سوربھ

;

تیری دولت رہ جائے گی تیرے گھر چوباروں تک
میرے اکھشر سیر کریں گے سورج چاند ستاروں تک

بات کفن کی نکلی تھی پر رستے میں نیلام ہوئی
رنگ برنگی چنری ہو گئی جب پہنچی اخباروں تک

جس کو جیسا روگ دیا ہے اس کا ویسا چارہ گر
بیماروں تک وید جی پہنچے شاعر عشق کے ماروں تک

مے خانہ میں اور تو کیا تھا ہم زخموں کی محفل تھی
بیچاروں سے شروع ہوئی تھی ختم ہوئی بیچاروں تک

جمہوری تہذیب یہی ہے سب کی اپنی حد بندی
جنتا کی حد ایک مہر تک نیتاؤں کی نعروں تک