EN हिंदी
تیرے لئے ایجاد ہوا تھا لفظ جو ہے رعنائی کا | شیح شیری
tere liye ijad hua tha lafz jo hai ranai ka

غزل

تیرے لئے ایجاد ہوا تھا لفظ جو ہے رعنائی کا

سرتاج عالم عابدی

;

تیرے لئے ایجاد ہوا تھا لفظ جو ہے رعنائی کا
سر سے لے کر ناخن پا تک عالم ہے زیبائی کا

دل کی ویرانی نے اتنا ذوق سماعت بدلا ہے
غم کی لے میں ڈھل جاتا ہے نغمہ خود شہنائی کا

چاروں طرف سیلاب آدم پھر بھی اکیلا ہوں جیسے
دھیرے دھیرے کھا جائے گا زہر مجھے تنہائی کا

حسن کے کاشانہ میں آ کر سر کو جھکانا پڑتا ہے
عشق کا بندہ ہو کر تجھ کو ذوق ہے کیوں دارائی کا

محنت سب سے بڑی عبادت محنت کش معمار قوم
عہد نو آغاز ہوا ہے ختم ہے دور شاہی کا

رنج و خوشی سرتاجؔ بہم ہیں یہ دنیا کی محفل ہے
غم کی تانیں کہیں پہ جاگیں شور کہیں شہنائی کا