تیرے لئے ایجاد ہوا تھا لفظ جو ہے رعنائی کا
سر سے لے کر ناخن پا تک عالم ہے زیبائی کا
دل کی ویرانی نے اتنا ذوق سماعت بدلا ہے
غم کی لے میں ڈھل جاتا ہے نغمہ خود شہنائی کا
چاروں طرف سیلاب آدم پھر بھی اکیلا ہوں جیسے
دھیرے دھیرے کھا جائے گا زہر مجھے تنہائی کا
حسن کے کاشانہ میں آ کر سر کو جھکانا پڑتا ہے
عشق کا بندہ ہو کر تجھ کو ذوق ہے کیوں دارائی کا
محنت سب سے بڑی عبادت محنت کش معمار قوم
عہد نو آغاز ہوا ہے ختم ہے دور شاہی کا
رنج و خوشی سرتاجؔ بہم ہیں یہ دنیا کی محفل ہے
غم کی تانیں کہیں پہ جاگیں شور کہیں شہنائی کا

غزل
تیرے لئے ایجاد ہوا تھا لفظ جو ہے رعنائی کا
سرتاج عالم عابدی