EN हिंदी
تذکرہ ان کا ہی جو رنگ بدل جاتے ہیں | شیح شیری
tazkira un ka hi jo rang badal jate hain

غزل

تذکرہ ان کا ہی جو رنگ بدل جاتے ہیں

سعید الزماں عباسی

;

تذکرہ ان کا ہی جو رنگ بدل جاتے ہیں
بات سایوں کی نہیں سائے تو ڈھل جاتے ہیں

آپ زحمت نہ کریں پرسش حال دل کی
منہ سے نا گفتنی جملے بھی نکل جاتے ہیں

اتنا خوش فہم نہ ہو اے دل پژمردہ کہ اب
وہ شگوفے جو نہ کھل پائیں کچل جاتے ہیں

کچھ دیے خون رگ جاں سے ہوئے ہیں روشن
کچھ دیے تندیٔ صہبا سے بھی جل جاتے ہیں