تذکرہ دل کا بار بار نہ کر
حسن کو حسن شرمسار نہ کر
لطف نظارۂ بہار اٹھا
شرح اجزائے برگ و بار نہ کر
قد و گیسو کو داد عشرت دے
فکر آداب گیر و دار نہ کر
بڑھ کے ساغر اٹھا جو پینا ہے
اذن ساقی کا انتظار نہ کر
شوق کی روشنی میں بڑھتا جا
کچھ خیال مآل کار نہ کر
دن جو گزریں بغیر شاہد و جام
زندگی میں انہیں شمار نہ کر
زیر دیوار مے کدہ میکشؔ
خوف آشوب روزگار نہ کر

غزل
تذکرہ دل کا بار بار نہ کر
مسعود میکش مراد آبادی